گردوں

گردوں کی بیماری کے 10علامات ماخوذ

۱۸مارچ کو پوری دنیا میں یوم گردہ منایا گیا۔ ہماری وادی میں بھی گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر اور انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے ڈاکٹروں نے "الگ الگ انداز” میں یہ دن منایا۔ (یہاں کے ڈاکٹر کوئی "کوئی دن بھی ایک ساتھ نہیں مناتے )۔ عالمی سطح پر جہاں تک صحت عامہ کا تعلق ہے، اب عالمی ادارہ صحت ہر ہفتے کوئی نہ کوئی خاص دن مناتا ہے، عالمی یوم ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، نقرس، اوسٹیو پوروسس، سرطانِ پستان، امراض قلب، شیر مادر وغیرہ کے بعد گزشتہ تین برسوں سے عالمی روزِ گردہ (ورلڈ کڈنی ڈے ) اس لئے منایا جا رہا ہے کہ طب سے وابستہ افراد گردوں کی بیماریوں کے متعلق تازہ ترین جانکاری حاصل کریں اور پھر عام لوگوں کو گردوں کی بیماری کے متعلق کم از کم اتنی جانکاری دے دی جائی کہ وہ گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے سے قبل ہی اپنا علاج ومعالجہ شروع کریں۔ گردوں کی مُزمن بیماریوں کا قبل از وقت پتہ لگانے اور بروقت علاج کرنے سے عالمی ادارہ صحت کا شرحِ اموات میں دو فیصد سالانہ کمی کرنے کا نشانہ آئندہ دو دہائیوں میں پورا ہوسکتا ہے۔ مُزمن، غیر متعدی بیماریوں اور بالخصوص امراض قلب، جگر، فشار خون، شوگر اور گردوں کی مُزمن بیماریوں کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ بیماریاں صحت عامہ اور (عالمی سطح پر) "ہیلتھ بجٹ” پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بنتی جا رہی ہیں۔ عالمی سطح پر ان مزمن بیماریوں کے علاج و معالجہ پر ہیلتھ کیئر بجٹ کا اسی فیصد خرچ ہو جاتا ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
دل، جگر، لبلبہ، پستان اور معدہ کے مقابلے میں گردوں کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی تھی حالانکہ گردوں کے امراض پر ایک کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں 1.5ملین گردوں کے مزمن بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو ڈیالسنزدیا جا رہا ہے یا انہیں گردوں کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں گردوں کے امراض میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور امراضِ قلب سے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو مریض کو ناکارہ بنا دیتے ہیں یا اسے موت سے ہمکنار کرواتے ہیں۔ اگرگردوں کی بیماریوں کا بروقت تشخیص دیا جائے اور مناسب وصحیح علاج معالجہ بہم پہنچایا جائے تو مریض نہ صرف مرض کی پیچیدگیوں سے بچ کرنا رمل زندگی گذار سکتا ہے بلکہ اس کی زندگی کے ماہ و سال میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔
گردوں کی بیماریوں میں روز افروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کشمیر میں ہزاروں لاکھوں لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں مگر وہ بے خبری کے عالم میں زندگی کی شاہراہ پر "رینگ "رہے ہیں۔ ان کے علامات اتنے واضع یا شدید نہیں ہوتے کہ وہ کسی معالج سے مشورہ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں۔ گردوں کے دیرینہ یا مزمن مرض میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ گردوں کے دیرینہ امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ایک "نارمل” زندگی گذارتے ہیں۔ انہیں کبھی گردوں کی ناکامی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال "عام اور سیدھے سادے لوگوں "کے لئے گردوں کی بیماریوں سے متعلق جانکاری ایک "طاقت ” ہے۔ اگر وہ گردوں کی بیماریوں کے علامات کی جانکاری رکھتے ہوں تو وہ مرض میں مبتلا ہوتے ہی کسی معالج سے مشورہ کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی آشنا درج ذیل علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کا اظہار کرتا ہے تو آپ کو فوری طورکسی ماہر معالج سے مشورہ کرنا چاہئے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بعض علامات گردوں کی بیماریوں کی بجائے کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں۔

علامت نمبر:١
پیشاب کیا ہے ؟
ہر انسان میں ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف دو گردے ہوتے ہیں۔ ان کا کام جسم کے اندر موجود محلول(پانی)اور دیگر مائع جات کو فلٹر کرنا ہے اور جسم سے ردی، فالتو اور زہریلا مواد خارج کرنا ہے۔ پانی اور نمکیات کی مقدار کو طبعی حدود میں رکھنے کے علاوہ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور خون میں خلیات کی تعداد کو مقررہ مقدار میں رکھنے کے لئے ہارمون ترشح کرنا ہے۔ اگر گردوں یا اس کے ساتھ وابستہ اعضاء میں کوئی خرابی یا بیماری ہو تو پیشاب کے رنگ اور بہاؤ میں بدلاؤ آسکتا ہے۔
آپ کے پیشاب کا رنگ بدلا ہوا ہے، نارمل پیشاب ہلکے قہوہ رنگ کا ہوتا ہے۔ اگر یہ لال، زیادہ پیلا، پیلا، سبز، کالا، سفید دودھیا، زیادہ جھاگ دار، نیلا، نارنجی یا گہرے رنگ کا ہو تو فوری آزمائش ادرار کریں۔
آپ کو بار بار پیشاب پھیرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ بہت زیادہ یا بہت کم پیشاب پھیرتے ہیں۔
پیشاب رُک رُک کر آتا ہے۔ پیشاب پھیرتے وقت ہچکچاہٹ، جلن یا سوزش محسوس ہوتی ہے۔
اگر جلدی سے باتھ روم نہ پہنچے تو پیشاب قطرہ قطرہ ٹپکنے لگتا ہے یا اس پر کنٹرول ہی نہیں رہتا ہے۔
ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے پیشاب پھیرنے کے بعد ابھی مثانہ پوری طرح خالی نہیں ہوا ہے۔
پیشاب کے ساتھ (یا پیشاب پھیرنے سے پہلے یا آخر میں )خون بھی آتا ہے۔
پیشاب پھیرتے وقت زور لگا نا پڑتا ہے تاکہ مثانہ خالی ہو جائے۔
رات کو دو تین بار جاگنا پڑتا ہے۔ پیشاب پھیرنے کے لئے جاگنے کی وجہ سے نیند میں خلل پڑتا ہے۔

علامت نمبر: ٢
جب گردوں کو کوئی مرض بہت دیر تک اپنی لپیٹ میں لئے پھرے تو دونوں گردے دھیرے دھیرے خستہ ہو جاتے ہیں اور وہ اضافی پانی جسم سے خارج کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں جس سے پیروں ، ٹخنوں ، ٹانگوں ، ہاتھوں میں اور چہرے پر ورم ظاہر ہو جاتا ہے۔ صبح کے وقت آنکھوں کے نچلے حصوں میں ورم نمایاں ہوتا ہے اور ٹانگوں ، پیروں ، ٹخنوں پر اگر ہاتھ کے انگوٹھے سے دباؤ ڈالا جائے تو دبانے کی جگہ گڑھا جیسا نمودار ہو جاتا ہے۔

علامت نمبر:٣
تھکاوٹ : صحت مند گردے ایک انتہائی اہم ہارمون اریتھروپوئیٹین بناتے ہیں۔ یہ ہارمون جسم کے خلیات کو آکسیجن پہنچانے والی (خون میں موجود) سرخ خلیات کو بنانے میں اہم ترین رول ادا کرتا ہے۔ جب گردے صحیح ڈھنگ سے اپنا کام انجام دینے میں ناکام ہوں تو اس اہم ہارمون کی کمی واقع ہو جاتی ہے، نتیجہ یہ کہ سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے۔ اس لئے دماغ اور عضلات جلدی تھک جاتے ہیں اور مریض تھکاوٹ محسوس کرتا ہے، اُسے ہر وقت اپنا آپ خستہ و کوفتہ لگتا ہے۔

علامت نمبر:٤
الرجی، خارش: انسانی جسم میں دو گردے جھاڑ پونچھ اور صفائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے فالتو زہریلا مواد جارج کرنے میں اپنا اہم رول نبھاتے ہیں۔ جب گردے کسی بیماری کی وجہ سے روٹھ جائیں تو یہ زہریلا اور غیر ضروری مواد خارج نہیں کرسکتے ہیں اور وہ مواد جسم میں جمع ہو جاتا ہے۔ مریض کو ہر وقت جسم کی جلد پر حساسیت (الرجی)نظر آتی ہے اور اسے ہر وقت جلد کھجلانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بسااوقات اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نہ صرف جلد بلکہ ہڈیوں کے اندر بھی خارش ہو رہی ہے۔ مریض اتنی شدت سے جلد کو رگڑتا ہے کہ کسی وقت اس کی جلد زخمی ہو جاتی ہے اور اس سے خون بہنے لگتا ہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی جلد میں دراڑیں پڑی ہوں اور وہ ایک عجیب سی بے قرار ی کا شکار ہو جاتا ہے۔

علامت نمبر:٥
منہ میں معدنی ذائقہ: جب گردوں کی بیماری طویل مدت تک مریض کو اپنی گرفت میں لئے رکھے تو گردے خون میں موجود زہریلا مواد، یوریا جسم سے رفع کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یوریاجسم کے خون کے اندر جمع ہو جاتا ہے اس کی سطح بڑھتی جاتی ہے اور مریض یوریمیا میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مریض جو کچھ کھاتا ہے اسے عجیب سا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے جیسے اسے کوئی معدن چبانا پڑتی ہے۔ بعض مریض کہتے ہیں کہ ” ان کا منہ بدمزہ ہے” اور انہیں یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ پگھلا ہوا سیسہ نگل رہے ہوں۔ مریض کی بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اسے کھانے پینے سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ مریض کو گوشت کھانے سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔ وہ گوشت کو دیکھتے ہی منہ پھیرتا ہے۔ چونکہ مریض کی بھوک ختم ہو جاتی ہے اس لئے اُس کے جسم میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، وٹامن اور نمکیات کی کمی ہوتی ہے اور اس کا وزن کم ہو جاتا ہے اور وہ حد سے زیادہ کمزوری محسوس کرتا ہے۔ وہ کوئی بھی کام انجام دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔

علامت نمبر:٦
اُبکائی، الٹی: جب گردوں کو کوئی مزمن بیماری گھیر لے تو وہ نیم مردہ ہو جاتے ہیں اور خون میں غیر ضروری یا زہریلے مواد، یوریا کی سطح بڑھتی رہتی ہے۔ یوریا کی سطح بڑھنے سے مریض پہلے اُبکائی محسوس کرتا ہے اور اگر اسے علاج میسر نہ ہوا تو اسے الٹیوں کی شکایت لاحق ہو جاتی ہے۔ اُبکائی سے پہلے شدید خارش اور بے قراری بھی ہوسکتی ہے۔ بھوک بالکل نہیں لگتی ہے۔ مریض اُبکائی اور اُلٹی کے ڈر سے کھانا پینا ترک کرتا ہے اس سے مریض "جنرل کمزوری” محسوس کرتا ہے اور اس کا وزن گھٹ جاتا ہے۔ اُلٹی آنے کی وجہ سے مریض دیگر بیماریوں کے کنٹرول کے لئے روز مرہ کی ادویات بھی نہیں لے سکتا ہے۔

علامت نمبر:٧
تنگی نفس (سانس کا پھول جانا) : جب گردوں کی بیماری ایک خاص مقام پر پہنچتی ہے تو دیگر علامات کے علاوہ مریض کی سانس "تنگ ” ہو جاتی ہے یا پھولنے لگتی ہے۔ وہ سینے پر عجیب قسم کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس کے دو وجوہات ہیں۔ (١)۔پھیپھڑوں میں اضافی پانی جمع ہو جاتا ہے۔ (٢)۔ خون میں سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے جس سے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر خلیات اور نسیجوں تک آکسیجن طبعی مقدار میں نہیں پہنچ پاتا ہے اور آکسیجن کی کمی سے مریض دُچارِ تنگی نفس ہو جاتا ہے۔ مریض کی سانس پھولتی ہے وہ گھبرا جاتا ہے، اس کی نیند اس سے روٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ لیٹ جانے سے اس کی سانس زیادہ پھولتی ہے۔ وہ اپنے سینے پر دباؤ محسوس کرتا ہے اور وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔

علامت نمبر:٨
سردی کا احساس: جب کوئی مریض گردوں کی کسی مزمن بیماری میں مبتلا ہو اور اس کے گردے اپنا کام صحیح ڈھنگ سے انجام دینے میں ناکام ہو رہے ہوں تو اسے دوسرے صحت مند لوگوں کے مقابلے میں سردی کا حد سے زیادہ احساس ہوتا ہے۔ جب دوسرے لوگ گرمی کی شکایت کر رہے ہوں تو وہ مریض سردی سے کانپ رہاہوتا ہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے برف کی ڈلی پر لٹا دیا گیا ہو یا یخ بستہ کمرے میں قید کیا گیا ہو، ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اسے خون کی کمی ہوتی ہے یعنی اس کے جسم میں سرخ خلیات کی تعداد اتنی کم ہوئی ہوتی ہے کہ اس کی جلد تک حرارت پہنچ نہیں پاتی ہے۔

علامت نمبر:٩
سر چکرانا اور…: گردوں کی ناکامی سے جسم میں خون کی کمی واقع ہونے سے دماغ کی آکسیجن سپلائی بری طرح متاثر ہوتی ہے جس سے مریض کا سر چکراتا ہے، اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے سر میں گیس بھری ہوئی ہے یا سر خالی خالی سا ہے۔ اسے کسی خاص کام پر توجہ مرکوز کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی یادداشت میں خلل پڑتا ہے۔ وہ اکثر چیزیں بھول جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا رہتا ہے۔ کانوں میں شور شرابہ ہوتا ہے اور وہ ایک عجیب سی بے قراری محسوس کرتا ہے۔ وہ کوئی کام بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس پر ہر وقت سستی اور کاہلی سی طاری رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے بے زار ہو جاتا ہے۔

علامت نمبر:۱۰
درد:کمر کے نچلے حصے، پہلو یا ٹانگ میں درد گردوں کی کسی مزمن بیماری کی علامت ہوسکتا ہے۔ کمر کے نچلے حصے میں درد پیٹ کے دونوں طرف (وسط میں )یا متاثرہ گردہ(دائیں یا بائیں ) کے طرف ٹانگ یا کولہو میں درد، گردوں کی بیماری کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔ گردوں میں اگر کئی رسولیاں ظاہر ہوں اور ان میں اضافی پانی جمع ہو تو درد شروع ہوتا ہے۔ کمر میں درد کے علاوہ رات کو کئی بار باتھ روم جانا پڑتا ہے۔ بعض مریض درد کی شدت سے بستر سے چپک جاتے ہیں۔ بسااوقات رات کے وقت درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ عورت ذات کو دردِ زہ کی یاد آتی ہے۔ مریض درد سے بے قرار ہو جاتا ہے اور وہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ اسے فوری ضد درد ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔ (یو این این)

Similar Posts